اندرونی سیاست کا شاخسانہ فلسطینیوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی

امریکہ معسود ابدالی ارضِ فلسطین گزشتہ سات دہائیوں سے لہو لہان ہے، لیکن 1996 میں انتہا پسند بن یامین نیتھن یاہو المعروف بی بی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے خونریزی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر کی 29 تاریخ کو بی بی نے چھٹی بار اسرائیلی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ اُس دن سے 29 جنوری تک 32 فلسطینیی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے۔ یعنی ہر روز ایک فلسطینی اپنی جان سے گیا۔ گزشتہ برس 300 فلسطینی مارے گئے تھے۔ان بے گناہوں کی واضح اکثریت 13 سے 25 سال کے نوخٰیز نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نومبر 2022 کے انتخابی نتایج دیکھ کر مشرق وسطیٰ پر نظر رکھنے والے سیاسیات کے علما نے خدشہ ظاہر کردیا تھا کہ مجرمانہ ماضی کے حامل انتہاپسند جتھوں پر مشتمل بی بی کی نئی حکومت فلسطینیوں کیلئے عذاب ثابت ہوگی۔ سچ تو یہ ہے کہ نیتھن یاہو کے لیکڈ اتحاد اور انکے قدامت پسند رفقا نے بھی اپنے فلسطین کش عزم کی اظہار میں مداہنت سے کام نہیں لیا۔ ان انتخابات میں بی بی کے لیکڈ اتحاد نے 32، دینِ صیہون (Religious Zionism)نے 14، شاس (پاسبانِ توریت) نے 11 اور توریت پارٹی نے 7 نشستیں جیت کر مخلوط حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔ ایک سو بیس رکنی اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) میں حکومت سازی کیلئے 61 ووٹ درکار ہیں۔ لیکڈ اور انکے تیں اتحادیو ں کی مجموعی نشستیں 64 ہیں لہٰذا بی بی نے اس بار قوم پرست اور دائیں بازو کی سیکیولر جماعتوں کو حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی۔ قوم پرست سیکیولر عناصر اور مذہبی جماعتوں کے مابین سماجی معاملات پر خاصے اختلافات ہیں اور انکی باہمی چپقلش کے نتیجے میں بی بی حکومت کو 1999 میں استعفی دینا پڑا تھا۔ اس بار برسرِ اقتدار اتحاد، نظریاتی اعتبار سے ہم آہنگ اور فلسطین کشی کے ایک نکاتی ایجنڈے پر یکسو ہے۔ اتحادی جماعتوں میں سب سے مضبوط دینِ صیہون جماعت، پارلیمان کی تیسری بڑی قوت ہے۔ یہ جماعت خود ہی کیا کم تھی کہ عزمِ یہود (Otzma Yehudit)اور خوشنودیِ رب پارٹی (Noam) بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے دینِ صیہون کا حصہ ہیں۔ گویا نفرت کا یہ دوآتشہ، نیم چڑھے کریلے کی بدترین مثال ہے اسے دلچسپ کہیں یا افسوسناک کہ مذہبی رہنماوں کیلئے فلسطینیوں کی نسل کشی انکے نظریاتی ایجنڈے بلکہ عقیدے پر بھی غالب آچکی ہے۔ حکومت سنبھالتے ہی بی بی نے اسپیکر یاریو لیون (Yariv Levin)کو وزارتِ انصاف کا قلمدان پیش کیا ، چنانچہ لیون صاحب اسپیکر کے منصب سے مستعفی ہوگئے۔ یاریو کی جگہ لیکڈ پارٹی نے 46 سالہ عامر اوہانہ (Amir Ohana)کو اسپیکر کا امیدوارنامزد کیا۔ خیالات کے اعتبار سے انتہائی قدامت پسند، مراکش نژاد عامر اعلانیہ ہم جنس پرست ہیں جنھوں نے ایک مرد سے شادی کررکھی ہے۔ یہ دونوں Surrogate Motherکے ذریعے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کے والدین بھی ہیں۔اسپیکر صاحب خود کو اپنے بچوں کی ما ں کہتے ہیں۔انتخابی مہم کے دوران مذہبی رہنماوں نے وعدہ کیا تھا کہ برسراقتدار آکر ہم جنس پرستی کی ہرسطح پر مخالفت کی جائیگی۔ خوشنودیِ رب پارٹی کے سربراہ اوی معوذ صاحب تو یہاں تک کہہ گئے کہ تھا کہ 2023 کی LGBTپریڈ انکی لاش پر ہوگی۔انتخابی مہم کے دوران وہ حضرت لوطؑ کی قوم پر آنے والے عذاب سے اسرائیلیوں کو ڈراتے رہے۔ یہی حال شاس کے سربراہ اور تلمود کے عالم أریہ مخلوف درعي کا تھا۔ لیکن ہم جنسی کے خلاف گز گز بھر لمبی زبان نکال کر تقریر کرنے والے سارے ”مولویوں” نے عامر اوہانہ کو ووٹ دئے۔بی بی نے ڈرایا تھا کہ اگر ہمارا اسپیکر ہار گیا تو کوئی بھی ہدف حاصل نہ ہوسکے گا چنانچہ خُدّامانِ توریت نے بڑے مقصد کے حصول کیلئے چھوٹی برائی قبول کرلی۔ بی بی نے کابینہ کیلئے جن انتہا پسندوں کا انتخاب کیا وہ سب فلسطین دشمن تو ہیں ہی، ان میں سے کئی خود اسرائیلی عدالتوں سے سزایافتہ تھے۔ کسی اور کا کیا ذکر خود بی بی صاحب پر بدعنوانی اور مالی بے ضابطگی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ وزارت عظمیٰ کے دوران انھوں نے استثنیٰ کے سہارے پیشیوں سے جان چھڑائی اور جب حکومت ختم ہوگئی تو کرونا کے نام پر عدالت کا سامنا کرتے سے کتراتے رہے۔ نئی حکومت کے وزیرصحت اور نائب وزیر اعظم اٰریہ مخلوف درعی کو بے ایمانی، رشوت ستانی، ٹیکس فراڈ اور منتخب نمائندے کی حیثیت سے عوام کا اعتماد پامال کرنے کے الزام میں تین سال قید کی سزا ہوچکی ہے۔ یہ جرم 1999 میں ثابت ہوا لیکن پارلیمانی استثنیٰ کی بناپر یہ جیل سے باہر ہیں۔ اس بار بھی جب یہ سوال اٹھا کہ ایک 'مجرم' وزیر کیسے بن سکتا ہے تو اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا 'جب عوام نے منتخب کرلیا تو وزیربننے میں کیا قباحت ہے'؟ اشتراکِ اقتدار معاہدے کے تحت کنیسہ کے پہلے اجلاس میں ایک قانونی ترمیم کے ذریعے جناب درعی کے استثنیٰ کو قانونی تحفظ فراہم کردیاگیا۔ بی بی کو احساس تھا کہ ان تقرریوں کے خلاف حزب اختلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے چنانچہ حلف اٹھاتے ہی وزیرانصاف نے ایک مسودہِ قانون نیسہ (پارلیمان) میں پیش کردیا۔ نئے قانون کے تحت کنیسہ واضح اکثریت یعنی 61 ووٹوں سے سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کو غیر موثر کرسکتی ہے۔ اسی طرح ججوں کی تقرری کیلئے جوڈیشل کونسل کا فیصلہ محض سفارش ہوگا جسکی حتمی منظوری وزارت انصاف دیگی۔ اس قانون پر وکلا اور انسانی حقوق کے کارکن سخت مشتعل ہوگئے اور بار کونسل نے ملک گیر ہڑتال کی۔ جب رم اللہ کے فلسطینی وکلا سے رائے لی گئی تو انھوں نے کہا ان تبدیلیوں سےہمیں کوئی پریشانی نہیں۔ فلسطینیوں کیلئے اگر حکومت قصاب ہے تو عدلیہ قصائی کے وہ 'چھوٹے' جو ذبیحے سے پہلے بسمل کے پیر باندھتے ہیں۔ اٰریہ مخلوف درعی کے حلف اٹھاتے ہی اسرائیلی عدالت عالیہ کے دس میں سے نو قاضیوں نے اخلاقی جرم میں سزا یافتہ ہونے کی بناپر موصوف کے تقرر کو 'انتہائی غیر معقول' قراردیتے ہوئے انھیں کابینہ سے ہٹانے کی سفارش کی ہے۔ جناب د رعی نے اپنے خلاف عدالتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ۔'اگر تم ہم پر دروازے بند کروگے تو ہم کھڑکیوں سے کود کر (ایوانِ اقتدار) داخل ہونگے اور اگر کھڑکیاں مقفل کی گئیں تو ال

اندرونی سیاست کا شاخسانہ فلسطینیوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی